Saturday 8 April 2017

MiSsing Noureen Laghari

http://haalhawal.com/asghar-narejo/noureen-missing/



نورین کی گمشدگی کا معمہ



اصغر ناریجو
میں نے ایک جریدے میں پڑھا تھا کہ سندھی قوم اللہ رسول سے پیار کرنے والی، قبر اور قیامت کے عذاب سے ڈرنے والی، پیروں، فقیروں اور درگاہوں سے اولاد مانگنے والی، مسجد کو مسیت بولنے والی، اسلامی کتابوں کو کپڑوں میں اوڑھ کر چومنے والی، محرم کے ماہ کو اماموں کا ماہ، ربیع الاول کو عرس کا ماہ، ظالم کو یزید کہنے والی، ہندو اور سکھ کے ساتھ ایک برتن میں کھانے سے عار نہ کرنے والی، بزرگوں کے درگاہوں پہ منتیں مانگنے والی قوم ہے ۔جس کو آپ صوفی یا سست کہو۔ مگر ان کا مذہب آسان اور سادہ ہے۔ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں، روزہ رکھیں یا نہ رکھیں، وہ کسی آدمی کے سامنے جواب دہ نہیں بلکہ اللہ کے سامنے ہیں۔ گھر میں کوئی شئے ہے یا نہیں، اگر ان سے پوچھا جائے تو کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے۔
اس قسم کی مذہبی سوچ رکھنے والے سندھ کے علاقوں سے مذہبی جنونیت کے واقعے رپورٹ ہوئے ہیں۔ جس میں لعل قلندر شہباز کے مزار پر دھماکہ جس میں ایک سو کے قریب لاشیں سندھ نے اپنے کندھے پہ اٹھائیں۔ اس سے پہلے شکارپور، جیکب آباد میں بھی دہشت گردانہ و انسانیت سوز وارداتیں ہو چکی ہیں۔ جس سے ایک بات عیاں ہوئی کہ سندھ میں دہشت گرد کارروائیاں مستقبل میں بھی ہو سکتی ہیں۔ سیہون سانحے سے ایک ہفتہ قبل 10 فروری جمعہ کی صبح ایک لڑکی اپنے گھر سے یونیورسٹی کے لیے نکلی، کلاسز لینے کے بعد لڑکی لاپتہ ہے۔ 48 دن گزر جانے کے باوجود تاحال گھر واپس نہیں لوٹی۔
لاپتہ ہونے والی لڑکی نورین لغاری سندھ یونیورسٹی جامشورو کے پروفیسر عبدالجبار لغاری کی بیٹی ہیں۔ نورین لغاری لمس یونیورسٹی میں دوسرے سال کی طالبہ ہیں۔ لاپتہ ہونے کے بعد سے ان کے والدین غمزدہ اور بے چین دکھائی دیتے ہیں۔ بھلا کیسے نہ ہوں جس کی جوان لڑکی لاپتہ ہو جائے، اس کو سکون تو نہیں آئے گی۔ نورین کے متعلق مختلف خبریں چل رہی ہیں۔ ایس ایس پی حیدرآباد کا کہنا ہے کہ لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز جامشورو کے سال دوم کی طالبہ نورین لغاری جو کچھ عرصہ قبل لا پتہ ہوگئی تھی، اپنی مرضی سے دہشت گرد تنظیم داعش میں شامل ہوگئی ہے۔
حیدرآباد پولیس یہ بھی بتا رہی ہے کہ 10 فروری کو حیدرآباد سے لاہور جانے والی ڈائیوو بس کی ایک ٹکٹ پر عورت کا نام نورین لکھا ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق اس دن نورین کسی جہادی گروپ سے رابطے کے دوران اپنی مرضی سے لاہور روانہ ہوئی اور بس اڈے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک لڑکی دکھائی گئی ہے ، جس کے متعلق پولیس کا کہنا ہیں کہ وہ نورین جبار ہیں۔
21 فروری کو نورین کے بھائی کو نامعلوم لڑکی اسوہ جتوئی کی فیس بک آئی ڈی سے میسج آیا۔ جس میں لکھا تھا کہ میں نورین ہوں، امید ہے کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ میں خلافت کی سرزمین پر پہنچ گئی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ آپ لوگ بھی یہاں جلد پہنچ جائیں گے۔ پولیس کے مطابق جس فیس بک آئی ڈی سے نورین کے بھائی کو میسیج ملا وہ اس ملک سے آپریٹ ہو رہی ہے۔
میں نے فیس بک پہ نورین کے والد جبار کا ایک انٹرویو سنا۔ جس میں جبار کہتے ہیں کہ میری بیٹی کے متعلق جو داعش میں شمولیت کا بتایا جاتا ہے، وہ نامناسب ہے۔ اس کے لاپتہ ہونے کا احساس مجھے ہے، دوسروں کو نہیں۔ ہم پل پل مر اور جی رہے ہیں۔ صبر کا دامن بھی جواب دینے لگا ہے۔ نورین گھر سے کوئی سامان، زیورات اور پیسے اٹھا کر نہیں نکلی ہیں، گھر میں ایسی کوئی چیز مسنگ نہیں ہے۔ جبار کا کہنا تھا کہ اس نے فیس بک، ای میل کے پاس ورڈز بھی پولیس سے شیئر کیے ہیں اور پولیس پر اعتماد کرتے ہیں کہ پولیس اچھا نتیجہ فراہم کرےگی۔
جبار لغاری کا مزید کہنا تھا کےہ خدارا داعش سے بیان منسلک کر کے اسے غلط رخ نہ دیں۔
48 دن گزر جانے کے بعد لاپتہ لڑکی نورین لغاری کی متعلق واضع حقائق نہیں بتائے گئے ہیں۔ نورین کی گم شدگی سندھی سماج کے لیے ایک بڑا سوال ہے۔ آخر تعلیمی اداروں میں کیا ہو رہا ہے جو پولیس لڑکی کے بارے میں انکشاف کر رہی ہے کہ وہ داعش میں شامل ہو گئی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں انتہاپسندی پھیلانے والے گروپس موجودہ ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کون کرے گا۔
یہ معاملہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی طالبات کہ مستقبل کے ساتھ ان ہزاروں خاندانوں اور سندھ کا بھی ہے۔ آخر سندھ میں یہ ہو کیا رہا ہے کہ ایک طرف سیہون میں دہشت گردی ہوتی ہے تو دوسری طرف تعلیمی اداروں سے لڑکیاں لاپتا ہو جاتی ہیں۔ جن کے بارے میں‌ یہ سنائی دیتی ہے کہ ان نے اپنی مرضی سے داعش میں شمولیت اختیار کی۔ سندھ حکومت اور وفاقی حکومت بھی لڑکی کے لاپتا ہونے متعلق خاموش ہیں۔ اتنے دن گزرنے کے بعد کسی کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ جیسا واقعہ کے بارے میں پولیس بتا رہی ہے تو یہ سندھ کی صوفی دھرتی اب ماضی کا نام رہ جائے گی۔ یہ صرف نورین لغاری کی گمشدگی کا واقعہ نہیں بلکہ پوری سندھ دھرتی کا واقعہ ہے۔ جس میں اداروں کو شدت پسند تنظیموں کا نیٹ ورک موجود ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
سندھ میں مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات کیسے اور کیوں‌ کر ہو رہے ہیں، اس پر سندھ کو سوچنا چاہیے۔ یہ سندھ کی آئندہ نسلوں کے مستبقل کا مسئلہ ہے۔

No comments:

Post a Comment